حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب ،خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے خلیفہ۔1841 ۔1914
حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ 1841 میں پنجاب کے ایک قدیم شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے پہلے خلیفہ منتخب ہوئے۔بانئِ سلسلہ احمدیہ کی وفات کے موقعہ پر جب کہ افرادِ جماعت کے دل انتہائی صدمہ سے چور تھے اور جماعت پر انتہائی بھاری وقت تھا،حضرت خلیفہ اولؓ نے جماعت کی صحیح راہنمائی فرمائی۔آپ نہایت ممتازعالِم ،غیر معمولی ماہرِدین اور معزز حکیم تھے۔ کم سنی میں ہی آپ نے قرآنِ مجید حفظ کرلیا تھااور زبانِ عربی پر عبور حاصل کر لیا تھا۔آپ نے قرآنی علوم کی گرانبہاجواہرات کی کان کا نہایت عمیق مطالعہ اور اس کے مضامین کا نہایت درجہ فہم و ادراک حاصل کر رکھا تھااورابتداءِ اسلام کے بارہ میں کتب کا بھی علم آپ کو حاصل تھا ۔ حصولِ علم کے شوق میں آپ نے دورو نزدیک کے سفر اختیار کئے۔اسی سلسلہ میں مکہ و مدینہ جیسی مقدس بستیوں میں چار سال تک مقیم رہے۔اوائل،جوانی میں خُناق کی بیماری لاحق ہوجانے کی وجہ سے آپ کا رجحان علمِ طب کی جانب ہواتو اس علم کے چوٹی کے ماہرین سے آپ نے علمِ طب سیکھا۔مریض کی حالت کا اندازہ کرنے میں آپ کو وِجدانیت کی حد تک مہارت حاصل تھی جس کے باعث آپ کوایک حاذق طبیب کی حیثیت سے بہت شہرت حاصل ہوئی۔علمِ روحانی و علمِ طب میں مہارت کے اس امتزاج کی وجہ سے ہندوستان کے ہر خاص و عام،اہلِ علم اور ان پڑھ طبقہ میں بھی مقبولیت حاصل ہوگئی۔اس زمانہ کے مہاراجہ کشمیر کو جب بھی کوئی طبی ضرورت پیش آتی تو وہ صرف آپ ہی کو یاد کرتے تھے۔ ان کامیابیوں کے باجودحضرت حکیم نور الدینؓ کبھی بھی دنیاوی جاہ و حشمت کے دلدادہ نہ تھے بلکہ اپنے خالق سے مضبوط تعلق پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ امتِ مسلمہ کے تنزل کو دیکھ دیکھ کر کڑھتے تھے اور دعا کرتے تھے کہ جس مسیح اور ہادی کی آمد کی گزشتہ نوشتوں نے خبر دی تھی وہ جلد تشریف لے آئے۔
حکمِ ایزدی سے جب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے23 مارچ 1889کو مأ موریت کا دعویٰ فرمایا توسب سے پہلا شخص جس نے ان کی صداقت پر یقین کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کی وہ کوئی اور نہیں بلکہ حضرت مولوی نور الدینؓ ہی تھے۔
آپؓ حضرت مسیح موعودؑ سے سچی عقیدت رکھتے تھے اور ان پر دل و جان سے فدا تھے۔قادیان میں قیام کے دوران آپؓ صرف حضورؑ کے حکم اور ہدایات کے منتظرنظرآتے تھے۔ وہ ایک منفرد شخصیت کے حامل اورحلقہ اہل علم و دانش میں نہایت مقبول و مطلوب تھے ۔اس تما شہرت و مقبولیت کے باوجود آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی رفاقت اور اسلام و حضرت محمد مصطفےﷺ کی ناموس کی حفاظت کے کام میں ان کی خدمت کو ترجیح دی۔حضرتِ اقدس ؑ کی وفات کے بعد 27مئی 1908 کو آپؑ کے پہلے خلیفہ منتخب ہوئے اور13مارچ 1914کو اپنی وفات تک بحیثیت خلیفۃ المسیح جماعتِ احمدیہ کی قیادت فرمائی ۔
اپنے دورِ خلافت میں انھوں نے مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی،بیت المال قائم کیا ،تعلیم السلام ہائی سکول کی بنیاد ڈالی اورتبلیغِ اسلام کی غرض سے بیرونِ ملک ’ برطانیہ میں پہلے مشن ہاؤس کا قیا م فرمایا۔قرآنی تعلیمات سے دنیا کو روشناس کرانے کے لئے ان کے درس القرآن نہ صرف جماعتِ احمدیہ کے لئے بلکہ تمام امت مسلمہ کے لئے روحانیت کی ایک مشعل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی قرآنِ مجید کی تفسیر ’’ حقائق الفرقان ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی جو قرآنی علوم کے معارف جاننے کا ایک بڑا زریعہ ہے۔
حضرت حکیم نور الدین صاحبؓایک مخلص،سادہ لوح،نہایت جید عالم اور صادق القول تھے۔انتظامی امور کے ماہر، بہترین قائداور راسخ الاعتقادتھے ۔آپؓ باحیا ،نرم خواو بر دبار تھے جس کے باعث وہ دور و نزدیک والوں میں نہایت مقبول تھے۔
ان کی وفات کی خبر ہندوستان بھر کے اخباروں نے شائع کی اور اس معزز شخصیت کی تعریف میں دل کھول کر مضامین لکھے ۔روزنامہ ’’زمیندار ‘‘ کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی صاحب نے لکھا: ’’۔۔۔مولانا حکیم نو رالدین صاحب جو ایک زبردست عالم اور جید فاضل تھے ،13 مارچ 1914 کو ایک طویل علالت کے بعد دنیائے فانی سے عالمِ جاودانی کو رحلت کرگئے۔۔۔ان کی رحلت ایک عظیم صدمہ ہے جس سے مسلم امہ میں ایک بڑا خلاء پیدا ہو گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زمانہ سو برس گردش کرنے کے بعد ایک باکمال پیدا کرتا ہے۔الحق رحلت کرنے والے مولانا حکیم نورالدین بھی ایسے ہی باکمال تھے۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭