ترجمہ: اور ان کے اس قول کے سبب سے کہ یقیناً ہم نے مسیح عیسیٰ ابنِ مریم کو جو اللہ کا رسول تھا قتل کر دیا ہے۔ اور وہ یقیناً اسے قتل نہیں کر سکے اور نہ اسے صلیب دے (کر مار) سکے بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ کر دیاگیا اور یقیناً وہ لوگ جنہوں نے اس بارہ میں اختلاف کیا ہے اس کے متعلق شک میں مبتلا ہیں۔ ان کے پاس اِس کا کوئی علم نہیں سوائے ظن کی پیروی کرنے کے۔ اور وہ یقینی طور پر اسے قتل نہ کر سکے۔

تفسیر صغیر: اور ان کے (یہ بات) کہنے کے سبب سے کہ اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے یقیناً قتل کر دیا ہے (یہ سزا انکو ملی ہے) حالانکہ نہ انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ انہوں نے اسے صلیب پر لٹکا کر مارابلکہ وہ ان کے لئے (مصلوب کے) مشابہ[1] بنادیا گیا اور جن لوگوں نے اس (یعنی مسیح کے صلیب سے زندہ اتارے جانے ) میں اختلاف کیا ہے وہ یقیناً اس (کے زندہ اتارے جانے کی وجہ سے) شک میں(پڑے ہوئے) ہیں۔ انہیں اس کے متعلق کوئی بھی (یقینی) علم نہیں ہے۔ ہاں (صرف ایک) وہم [2]کی پیروی (کر رہے ہیں) اور انہوں نے اس (واقعہ کی اصلیت) کو پوری طرح نہیں سمجھا (اور جو سمجھا ہے غلط سمجھا[3]ہے)۔

1.مطلب یہ کہ مسیح کو صلیب پر لٹکانے کے بعد اس کے بے ہوش ہو جانے کی وجہ سے بعض لوگوں نے خیال کیا کہ وہ صلیب پر مر گئے ہیں۔ عربی میں صَلَبَ کا لفظ صلیب پر چڑھانے اور ہڈیاں توڑنے کے لئے استعمال ہوتا ہے چونکہ مسیحؑ کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں اس لئے مَاصَلَبُوْہُ کہا گیا ہے۔

2.یعنی تمام حالات صلیب پر مرنے کے خلاف تھے مگر چونکہ یہود کا دل چاہتا تھا کہ مسیحؑ صلیب پر مریں۔ اس لئے اپنے ہی وہم کا شکار ہو کر وہ مسیحؑ کی صلیبی موت پر یقین لاتے رہے۔

3.قَتَلَ الشَّیْئَ خُبْرًا کے معنے یہ بھی ہیں اَحَاطَ بِہٖ عِلْمًا (اقرب)کہ کسی چیز کو علم کے لحاظ سے پوری طرح سمجھ لیا۔ پس مَاقَتَلُوْہُ یَقِیْنًا کے معنے ہونگے انہوں نے اس واقعہ کی اصلیت کو پوری طرح نہیں سمجھا۔ اور نہ اپنے ظن کو یقین کے ساتھ بدلا۔ اسی طرح اس آیت کے ایک معنے یہ ہیں کہ یہ یقینی بات ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا۔

ترجمہ: بلکہ اللہ نے اپنی طرف اس کا رفع کرلیا اور یقیناً اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

تفسیر صغیر: واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے اسے اپنے حضور میں عزت (ورفعت)دی تھی(اور وہ صلیب[4] پر مر نہیں گیا تھا) کیونکہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

4.تورات میں ہے کہ جو صلیب پر مرے یعنی کاٹھ پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے۔ (استثناء باب ۲۱ آیت ۲۳)

(استثناء باب ۲۱ آیت ۲۳)" اُس کی لاش رات بھر درخت(لکڑی) پر نہ پڑے بلکہ اُسے اُسی دن دفن کر دینا۔ کیونکہ پھانسی پر لٹکانے والے پر خدا کی لعنت ہے اور تم اس ملک کو ناپاک نہ کرنا جو خداوند تمہارا خدا تمہیں میراث میں دے رہا ہے۔"

ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے بلند کیا جنہیں تم دیکھ سکو۔ پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا اور سورج اور چاند کو خدمت پر مامور کیا۔ ہر چیز ایک معین مدت تک کے لئے حرکت میں ہے۔ وہ ہر معاملہ کو تدبیر سے کرتا ہے (اور) اپنے نشانات کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے ربّ سے ملاقات کا یقین کرو۔

تفسیر صغیر: اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا ہے۔ جیسا کہ تم دیکھ ہی رہے ہو (اور) پھر وہ عرش پر قائم ہوا ہے اور سورج اور چاند کو اس نے (تمہاری) خدمت پر لگا رکھا ہے (چنانچہ) ہر ایک (سیارہ) ایک معین میعاد تک (اپنی گردش کے مطابق) چل رہا ہے۔ وہ (اللہ) ہر امر کا انتظام کرتا ہے۔ (اور) اپنی آیات کو کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم (لوگ) اپنے رب سے ملنے کا یقین رکھو۔

ترجمہ: اُس کی رِفعت کو اس نے بہت بلند کیا۔ پھر اُسے ٹھیک ٹھاک کیا۔

تفسیر صغیر:(اور) اس کی بلندی کو اونچا کیا ہے‘ پھر اسے بے عیب بنایا ہے۔

سُوْرَۃُ النّٰزِعٰتِ 29

ترجمہ: اور جب ہم نے (تم سے) تمہارا پختہ عہد لیا اور طُور کو تم پر بلند کیا۔ اسے مضبوطی سے پکڑ لو جو ہم نے تمہیں دیا ہے اور اسے یاد رکھو جو اس میں ہے تاکہ تم (ہلاکت سے) بچ سکو۔

تفسیر صغیر:اور (اس وقت کو بھی یاد کرو) جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا اور طور کو تمہارے اوپر[1] بلند کیا تھا (اور کہا تھا کہ) جو (کچھ) ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد[2] رکھو‘ تا کہ تم متقی بن جاؤ۔
1
. وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ یعنی تم کو پہاڑ کے دامن میں کھڑا کیا تھا۔ (خروج باب۱۹ آیت۱۷)۔
2. ذَکَرَہٗ کے معنی ہیں حَفِظَہٗ فِیْ ذِھْنِہٖ (اقرب) یعنی کسی بات کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا۔ پس وَاذْکُرُوْا کے معنے ہوں گے اسے محفوظ کر لو اور یاد رکھو۔

سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ 64

سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ 94

ترجمہ:اور جب ہم نے (تم سے) تمہارا پختہ عہد لیا اور طُور کو تمہارے اوپر بلند کیا (یہ کہتے ہوئے کہ) جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور سنو۔ انہوں نے (جواباً) کہا ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی۔ اور ان کے دلوں کو ان کے کفر کی وجہ سے بچھڑے کی محبت پلا دی گئی۔ تُو (ان سے) کہہ دے کہ اگر تم مومن ہو تو بہت ہی برا ہے جس کا تمہیں تمہارا ایمان حکم دیتا ہے۔

تفسیر صغیر:ااور (اس وقت کو بھی یاد کرو) جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا اور طور کو تمہارے اوپر[1] بلند کیا تھا (یہ کہتے ہوئے کہ) جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑو اور اس (یعنی اللہ) کی اطاعت کرو۔ اس پر (تم میں سے جو لوگ اس وقت ہمارے مخاطب تھے) انہوں نے کہا تھا کہ (بہت اچھا) ہم نے سن لیا اور (ہم یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ) ہم نے (اس حکم کے) نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ان کے کفر کے سبب سے ان کے دلوں[2] میں بچھڑا (یعنی اس کی محبت کا جذبہ) گھر کر گیا۔ تو (ان سے) کہہ کہ اگر تم (جیسا کہ دعویٰ کرتے ہو) مومن ہو تو وہ کام جس کا تمہیں تمہارا ایمان حکم دیتا ہے بہت برا ہے۔
1.وَرَفَعْنَا فَوْقَـکُمُ الطُّوْرَ: یعنی تم کو اس کے دامن میں کھڑا کیا تھا۔
2.
عربی کا محاورہ ہے اُشْرِبَ فُـلَا نٌ حُبَّ فُـلَا نٍ اور معنے یہ ہوتے ہیں خَالَطَہٗ حُبُّہٗ قَلْبَہٗ (اقرب) یعنی فلاں کی محبت اس کے دل میں رچ گئی۔ پس اُشْرِبَ مجہول کے صیغہ میں محبت کے رَچ جانے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بحر محیط میں لکھا ہے۔ وَ قَالُوْا اَشْرَبْتُ الْبَیَاضَ الْحُمْرَۃَ اَی خَلَطْتُّـھَا بِالْحُمْرَۃِ یعنی عرب بعض دفعہ کہتے ہیں کہ میں نے سفیدی کو سرخی پلائی اور مراد ہوتی ہے کہ سفید رنگ میں سرخ رنگ ملا دیا۔ ایک شاعر کہتا ہے۔
اِذَا مَا الْقَلْبُ اُشْرِبَ حُبَّ شَیْئٍ۔ فَـلَا تَـاْمَـلُ لَـہٗ عَنْـہُ انْـصِرَافـًا
یعنی جب دل میں کسی کی محبت رچ جائے تو پھر اس سے یہ امیدنہ رکھ کہ وہ اپنے معشوق کو چھوڑ دے گا۔ غرض اُشْرِبَ مجہول کے صیغہ میں رچ جانے‘ سرایت کر جانے اور گھر کر جانے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس جگہ وہی معنے مناسب ہیں۔