ترجمہ: محمد تمہارے (جیسے) مَردوں میں سے کسی کا باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبیوں کا خاتَم ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

تفسیر صغیر : نہ محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ تھے نہ ہیں[1] (نہ ہونگے) لیکن اللہ کے رسول ہیں بلکہ (اس سے بھی بڑھ کر) نبیوں کی مہر[2] ہیں اور اللہ ہر ایک چیز سے خوب آگاہ ہے۔

1-مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ کے الفاظ قرآن مجید میں ہیں اور عربی کا قاعدہ ہے کہ کَانَ استمرار کے معنے بھی دیتا ہے (دیکھئے تاج العروس و مُغْنی اللّبِیب) پس ہم نے استمرار کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ کسی مرد کے باپ تھے‘ نہ ہیں‘ نہ ہونگے۔‘‘

2-یعنی آپ کی تصدیق کے بغیر اور آپ کی تعلیم کی شہادت کے بغیر کوئی شخص نبوت یا ولایت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ لوگوں نے نبیوں کی مہر کی جگہ آخری نبی کے معنے لئے ہیں۔ مگر اس سے بھی ہماری پوزیشن میں فرق نہیں آتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم کے معراج کو مدِّنظر رکھا جائے تو انبیاء کا شجرہ مطابق مسند احمد بن حنبلؒ یوں بنتا ہے۔

اس نقشہ کو دیکھو تو مخلوق کے مقام پر جو شخص کھڑا ہوگا‘ اس کی نظر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام پر پڑے گی اور سب سے آخراس کی نظر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑے گی۔
سدرۃ المنتہیٰ: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ساتواں آسمان: حضرت ابراہیم علیہ السلام
چھٹا آسمان: حضرت موسیٰ علیہ السلام
پانچواں آسمان: حضرت ہارون علیہ السلام
چوتھا آسمان: حضرت ادریس علیہ السلام
تیسرا آسمان:حضرت یوسف علیہ السلامدوسرا آسمان: حضرت عیسیٰ و حضرت یحییٰ علیہما السلام
پہلا آسمان: حضرت آدم علیہ السلام
اہل زمین

گویا سب نبیوں میں آخری نبی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیگا۔ اس کے علاوہ اگر اس حدیث کو لیں کہ آدمؑ ابھی پیدا بھی نہ ہواتھا‘ تب بھی میں خاتم النبیین تھا۔ تو بھی شجرہ انبیاء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام کے لحاظ سے اوپر کی جگہ حاصل ہے۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں سب سے اوپر گئے تومقام محمدی آخری نبوت کا مقام بنا۔ اس طرح بھی وہی معنے ٹھیک رہے جو ہم نے کیے ہیں۔ یعنی ختم نبوت کے یہ معنے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سب نبیوں سے افضل ہے۔

ترجمہ: اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی شنوائی پر بھی۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ اور ان کے لئے بڑا عذاب (مقدر) ہے۔

تفسیر صغیر: اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر کر دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لئے ایک بڑا عذاب (مقدر) ہے۔

ترجمہ: تو پوچھ کہ کیا کبھی تم نے غور کیا ہے کہ اگر اللہ تمہاری سماعت اور تمہاری بینائی لے جائے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ کے سوا کونسا معبود ہے جو ان (کھوئی ہوئی صلاحیتوں) کو تمہارے پاس (واپس) لے آئے۔ دیکھ کہ ہم کس طرح آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں پھر بھی وہ منہ پھیر لیتے ہیں۔

تفسیر صغیر: تو کہہ دے کہ بتاؤ تو سہی (کہ) اگر اللہ تمہاری شنوائی اور بینائی کو ضائع کر دے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو وہ (ضائع شدہ چیز) تمہیں (واپس) لا دے گا۔ دیکھ ہم کس طرح آیتوں کو باربار (مختلف پیرایہ میں) بیان کرتے ہیں (مگر) پھر بھی وہ اعراض کرتے چلے جاتے ہیں۔

ترجمہ: وہ ایک سربمہر شراب میں سے پلائے جائیں گے۔

تفسیر صغیر: انہیں خالص سر بمہر شراب پلائی جائے گی۔

ترجمہ: اُس کی مہر مشک ہوگی۔ پس اسی (معاملہ) میں چاہئے کہ مقابلہ کی رغبت رکھنے والے ایک دوسرے سے بڑھ کر رغبت کریں۔

تفسیر صغیر: اس کے آخر میں مشک ہوگا۔ اور چاہیے کہ خواہش رکھنے والا (انسان) ایسی (ہی) چیز کی خواہش کریں۔

سُوْرَۃُ التَّطْفِیْفِ 27

ترجمہ: کیا تُو نے اسے دیکھا ہے جو اپنی خواہش کو ہی معبود بنائے بیٹھا ہو اور اللہ نے اسے کسی علم کی بِنا پر گمراہ قرار دیا ہو اور اس کی شنوائی پر اور اس کے دل پر مہر لگادی ہو اور اسکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہو؟ پس اللہ کے بعد اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ کیا پھر بھی تم نصیحت نہیں پکڑو گے؟

تفسیر صغیر: کیا تو نے اس شخص کی حالت پر بھی غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفسانی کو اپنا معبود بنا لیا ہے اور اللہ نے اس کو (اپنے) علم کامل کی بنا پر گمراہ قرار دیا ہے‘ اور اس کے کانوں اور اس کے دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ سو اب اللہ کے (اس فعل کے) بعد اس کو کون ہدایت دے سکے گا؟ کیا تم نصیحت نہیں حاصل کرتے؟

ترجمہ: آج کے دن ہم ان کے مُونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے اس کی جو وہ کسب کیا کرتے تھے۔

تفسیر صغیر:اس دن ہم (ان کے کفر کی وجہ سے) ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے (یعنی بولنے کی ضرورت نہیں ہوگی) اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں ان کی کرتوتوں پر گواہی دیں[1] گے۔

1- تفصیل تو تفسیر کا کام ہے۔ موٹی مثال اس کو حل کرنے کے لئے یہ ہے کہ آتشک کے مریض کے ناک اور حلق پر اس مرض کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ گویا جسم بول کر کہہ دیتا ہے کہ اس شخص نے زنا کیا ہے۔

ترجمہ: کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اللہ پر جھوٹ گھڑ لیا ہے؟ پس اگر اللہ چاہتا تو تیرے دل پر مہر لگا دیتا اور جھوٹ کو اللہ مٹا دیا کرتا ہے اور حق کو اپنے کلمات سے ثابت کر دیتا ہے۔ یقیناً وہ سینوں کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر صغیر: کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اللہ پر جھوٹ گھڑ لیا ہے؟ پس اگر اللہ چاہتا تو تیرے دل پر مہر لگا دیتا اور جھوٹ کو اللہ مٹا دیا کرتا ہے اور حق کو اپنے کلمات سے ثابت کر دیتا ہے۔ یقیناً وہ سینوں کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔

1-یعنی اگر جھوٹ بولتا تو اس کا تقویٰ ضائع ہو جاتا اور دل پر مہر لگ جاتی۔ مگر یہ تو نزول قرآن کے بعد تقویٰ میں بڑھ گیا ہے۔ پس دشمن کا الزام جھوٹا ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں کفار کے لئے بھی مہر کا لفظ آتا ہے مگر وہاں اس کے یہ معنے ہیں کہ اس درجہ کے بعد ان کے دل میں کسی قسم کا تقویٰ داخل نہیں ہو سکتا۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ مراد ہے کہ یہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اس کے دل میں کسی قسم کا کفر داخل نہیں ہو سکتا۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرا شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے یعنی وہ جو بات بھی میرے دل میں ڈالتا ہے وہ نیکی کی صورت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ (مسلم ۔کتاب صفات المنافقین، باب تحریش الشیطان و بعثہ۔ مسند احمد بن حنبل جلد ۶ ص۱۱۵ مطبوعہ بیروت)