سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ55

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۵﴾

ترجمہ : جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ! یقیناً میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے نتھار کر الگ کرنے والا ہوں جو کافر ہوئے، اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالادست کرنے والا ہوں۔ پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے جس کے بعد میں تمہارے درمیان اُن باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔:

تفسیر صغیر: (اس وقت کو یاد کرو) جب اللہ نے کہا۔ اے عیسیٰ! میں تجھے (طبعی طور پر) وفات دوں گا اور تجھے اپنے حضور عزت[1] بخشوں گا اور کافروں (کے الزامات) سے تجھے پاک کروں گا اور جو تیرے پیرو ہیں انہیں ان لوگوں پر جو منکر ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا۔ پھر میری ہی طرف تمہیں لوٹنا ہوگا۔ تب میں ان باتوں میں جن میں تم اختلاف کرتے ہو تمہارے درمیان فیصلہ کروں گا۔
1.رَفَعَ کے معنے عربی میں عزت بخشنے کے بھی ہوتے ہیں۔ (مفردات)

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَمَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَسَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۴۴﴾

ترجمہ: : اور محمدنہیں ہے مگر ایک رسول۔ یقینا اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر یہ بھی وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائےگا تو وہ ہرگز اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکےگا۔ اور اللہ یقینا شکرگزاروں کو جزا دے گا۔

تفسیر صغیر: اور محمد صرف ایک رسول ہے۔ اس سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں۔ پس اگر وہ وفات پا جائے یا قتل کیا جائے تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جاؤ گے؟ اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جائے وہ اللہ کا ہرگز کچھ نقصان نہیں کر سکتا۔ اور اللہ شکر گذاروں کو ضرور بدلہ دے گا۔

سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ144

سُوْرَۃُ الْمَآئِدَۃِ 117

وَاِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَاُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالَ سُبۡحٰنَکَ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اَقُوۡلَ مَا لَیۡسَ لِیۡ ٭ بِحَقٍّ ؕ؃ اِنۡ کُنۡتُ قُلۡتُہٗ فَقَدۡ عَلِمۡتَہٗ ؕ تَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِیۡ وَلَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِکَ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۱۱۶﴾

ترجمہ : اور (یاد کرو) جب اللہ عیسیٰ ابنِ مریم سے کہے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ وہ کہے گا پاک ہے تُو۔ مجھ سے ہو نہیں سکتا کہ ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو۔ اگر میں نے وہ بات کہی ہوتی تو ضرور تُو اسے جان لیتا۔ تُو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے۔ یقیناً تُو تمام غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر صغیر: اور (یاد کرو) جب اللہ عیسیٰ ابنِ مریم سے کہے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ وہ کہے گا پاک ہے تُو۔ مجھ سے ہو نہیں سکتا کہ ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو۔ اگر میں نے وہ بات کہی ہوتی تو ضرور تُو اسے جان لیتا۔ تُو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے۔ یقیناً تُو تمام غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔

3.قَالَ ماضی ہے لیکن اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس دن کہے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مسیحیوں نے مسیحؑ اور اس کی ماں کو مسیح کے مرنے کے بہت بعد خدا بنایا ہے۔